واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

 

حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی

رحمتہ اللہ علیہ

 

حضرت ابو احمدابدال چشتی رحمتہ اللہ علیہ ۶ رمضان ۲۶۰ہجری کو پیدا ہوئے۔آپ کے والد سید ابراہیم فرغانہ کے سلطان تھے۔ آپ حسنی حسینی سادات عظام میں سے تھے اور حضرت خواجہ ابو اسحق شامی قدس سرہ کے خلیفۂ اکبر تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا لقب قدوۃ الدین تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ جمال ظاہری و باطنی کے پیکر تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرمانروائے فرغانہ کے بیٹے تھے آپ رحمتہ اللہ علیہ کا نسب چند واسطوں سے حضرت حسن مثنیٰ علیہ السلام سے ملتا ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

                                                                   بیرونی حملہ آوروں کی وجہ سے یہ مزارات  اب  کھنڈرات میں تبد یل ہو چکے ہیں

آپ کا نسب نامہ یوں ہے:

حضرت ابو احمدابدال چشتی رحمتہ اللہ علیہ بن سلطان فرغانہ سید ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ بن سید یحییٰ بن سید حسن بن سید مجدالمعالی المعروف بہ ابوالمعالی بن سید ناصر الدین بن سید عبدالسلام بن سید حسن مثنیٰ بن سید اما م حسن علیہ السلام مجتبیٰ بن امام المتقین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم۔

سلطان فرغانہ سید ابراہیم کی ایک بہن تھی جو  ولیہ اور صالحہ خاتون تھی ۔حضرت ابو اسحاق شامی رحمتہ اللہ علیہ   بسا اوقات ان کے گھر جاتے اور کھانا بھی کھاتے تھے ۔ ایک دن  آپ نے اسے بتایا  کہ تمہارے بھائی کو اللہ تعالٰی  ایک بیٹا دے گا ۔تم اس کی پرورش کرنا اور کوئی مشکوک خوراک اس کے پیٹ میں نہ جانے دینا۔چنانچہ وہ آپ کی خوراک کی نگرانی  کرنے لگیں۔

حضرت ابو احمدابدال چشتی رحمتہ اللہ علیہ  کے والدسلطان فرغانہ سید ابراہیم  ایک شراب خانے کے مالک تھے ۔ حضرت ابو احمدابدال چشتی رحمتہ اللہ علیہ  بچپن میں  ایک دن شراب خانے گئے۔اندر سے دروازہ بند کر لیا اور شراب کے تمام مٹکے توڑ ڈالے۔ سلطان فرغانہ سید ابراہیم چھت پر کھڑے تھے ۔بچے کی اس حرکت کو دیکھا تو نہایت غصہ سے چلائے اور ایک پتھراٹھا کر دے مارا۔ یہ پتھر  حضرت ابو احمدابدال چشتی رحمتہ اللہ علیہ کے  قریب جا کر ہوا میں معلق ہو گیا۔ سلطان یہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔وہ فوراً شراب خانے میں آیا  اور اپنے بیٹے کو گود میں اٹھا لیا۔اس واقعہ کے بعد سلطان فرغانہ سید ابراہیم نے اللہ تعالٰی سے معافی مانگی اور شراب نوشی سے توبہ کی۔یہ واقعہ ۲۷۰ ہجری میں پیش آیا۔

جب حضرت ابو احمدابدال چشتی رحمتہ اللہ علیہ کی عمر سات برس ہوئی تو آپ  حضرت ابو اسحاق شامی رحمتہ اللہ علیہ    کی خدمت میں حاضر ہوئےاور ظاہری  و باطنی تعلیم حاصل کی۔آپ سولہ سال کی عمر میں ظاہری  علوم سے فارغ ہوئے تو   حضرت ابو اسحاق شامی رحمتہ اللہ علیہ    نے آپ کو بیعت کر لیا۔

حضرت ابو احمدابدال چشتی رحمتہ اللہ علیہ   بڑے عابد و زاہد تھے۔ پیرو مرشد نے آپ کو بیعت کرنے کے بعد ایک خلوت کدے میں مجاہدے پر لگا دیا تھا۔ چنانچہ آپ سات دن بعد کھانا تناول فرماتے لیکن تین لقموں سے زیادہ کبھی نہ کھاتے اور چالیس دنوں بعد حاجات بشری کے لیے باہر نکلتے۔ آٹھ سال کی محنت شاقہ کے بعد خرقہ خلافت مرحمت ہوا۔

آپ کی کرامات کی شہرت مشرق و مغرب میں پھیلی تو علما کو آپ سے حسد ہونے لگا۔ آپ کی مجلس سماع کے خلاف فتویٰ بازی ہونے لگی اور علماء نے ایک محضر نامہ تیار کرکے حاکم وقت امیر نصیر کو پیش کیا۔ امیر نے ملک بھر کے علماء کی مجلس بلائی جس میں کئی ہزار علماء جمع ہوئے خواجہ ابو احمد ابدال رحمتہ اللہ علیہ  کو بھی اس مجلس میں پیش کیا گیا آپ کے ساتھ ایک خادم محمد خدا بندہ بھی تھا جس کو قرآن حکیم میں سے سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص کے علاوہ کچھ بھی یاد نہ تھا۔ جب آپ اپنے خادم کے ہمراہ امیر نصیر کی بلائی ہوئی مجلس علماء میں پہنچے تو علماء جو پہلے سے یہ طے کیے بیٹھے تھے کہ خواجہ ابو احمد رحمتہ اللہ علیہ  آئیں گے تو علماء میں سے کوئی بھی نہ تو ان کا استقبال کرے گا اور نہ ہی انکی عزت افزائی کی جائے گی۔

جب آپ تشریف لائے تو سب بے ساختہ و بے ارادہ آپ کی تعظیم کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے‘ استقبال کر کے مجلس میں ایک بلند و نمایاں مسند پر بٹھایا اور مسئلہ سماع پر گفتگو شروع کر دی۔ جب علماء اپنا نکتہ نظر بیان کر چکے تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے خادم محمد خدابندہ کو اشارہ فرمایا کہ ان علمائے کرام کے اعتراضات کے جوابات دو وہ خادم ان پڑھ اور جاہل تھا لیکن ایک نگاہ کرم سے اس پر علم کے دروازے کھلتے چلے گئے اور وہ نہایت فصیح و بلیغ انداز میں قرآن و حدیث سے علمائے کرام کے اعتراضات کا جواب دینے لگا اور بزرگان سلف کے طریقہ کو بھی بیان کرنے لگا۔ علمائے کرام اس خادم کے جوابات سن کر دنگ رہ گئے اور بعض تو شرمندگی سے سرجھکائے بیٹھے رہے۔

حضرت ابو احمدابدال چشتی رحمتہ اللہ علیہ یکم جمادی الثانی۳۵۵ ہجری کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے